eid ul fitr 2024|eid ul fitr 2024 in pakistan|coming soon

Eid ul Fitr 2024 is coming soon 

                                       

                                        Eid-ul-Fitr Day 1 in Pakistan

عید الفطر2024کی آمد  کی خوشیاں

ہر سال عیدالفظر ہر مسلمان کے لیے بہت سی خوشیاں لے کر آتی ہے ۔ہر سال کی طرح اس سال2018  میں بھی ہر مسلمان کی یہی اُمید ہے کہ ہم عید کی خوشیاں بہت دھوم دھام سے منائیں گے۔دُنیا بھر میں اس اسلامی تہوار کو بہت عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ہر گھر میں اچھے اچھے لذیذ کھانے بنتے ہیں اور دوستوں ،رشتہ داروں کو پیش کیے جاتے ہیں ۔تمام لوگ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے اُن کے گھروں میں جاتے ہیں اور سالوں کی ناراضگیا ں دوستی میں  بدل دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں دلوں میں محبت بڑھ جاتی ہے۔لوگ نئے نئے کپڑے پہنتے ہیں اور عید کی خوشیوں سے لطف اندوز  ہوتے ہیں۔


لیکن اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کچھ ایسے حالات رو نما ہوتے ایسے خوشی کے مواقعوں پر کی تمام خوشیوں پر پانی پھر جاتا ہے۔آج اُن حالات و واقعات کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے۔


 کیا اس سال 2024     میں بھی یہی سب کچھ دیکھنے کو ملے گا؟

2024 میں آنے والی عید جسکو عید الفطر یا چھوٹی عید بھی کہا جاتا ہےبہت سے لوگوں کے لیے خوشیاں اور رونقیں لے کر آ رہی ہے۔ہر مسلم  کو اس دن کے آنے کا شدت سے انتظار ہوتا ہےخواہ وہ مسلم پاکستان سے ہو یا دُنیا کے کسی بھی ملک سے ۔و ہ سب اس دن کے لیے اپنے اپنے بچوں کو اور گھر کو تمام افراد کو اس پُر مسرت موقع سے لطف اندوز ہونے کے لیے تیار کر رہے ہوتے ہیں ۔ 


سب لوگ بازاروں میں خریداری کرتے ہیں اور رنگارنگ لباس ،جوتے اور پرفیوم وغیرہ  خریدتے ہیں ۔عورتیں خصوصا ؔ   اپنا میک اپ کا سامان خریدتی ہیں اس سے اُن کے مردوں کی جیب پر بہت اثر پڑتا ہے بعض اوقات بلکل خالی بھی ہو جاتی ہیں ۔لیکن اس کے باوجود بھی مردوں کی یہی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اُ س کے بیوی بچے اس عید کے موقع سے بھر پور لطف اندوز ہوںنہ کہ پریشانی کی حالت میں  کسی کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے آنسو بہاتے رہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک غریب گھرانے کے مرد کی یہی کوشش ہو تی ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بیوی کو اس عید کے موقع پر ہر وہ تمام سہولیات میسر کرے جو اُن کا حق ہے چاہے اُس کے لیے اسے عارضی طور پر قرض ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔ دُنیا میں ایسے بہت سے غریب لوگ ہیں جو اس موقع پر ایسا ہی 

کرتے ہیں۔





عید الفطر 2024 میں بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ عید کی رنگا رنگ خوشیاں ایک بار بھر سے ہمارے ملک اور ہمارے گھروں میں خوشیاں بکھیرنے آرہی ہے اور ہر سال کی طرح ہر مسلم شخص کا یہی ارادہ ہے کی اس خوشی کو موقع کو بہت اچھے اور احسن طریقے سے منائے گا ۔ہر فرد کا یہی ارادہ  ہے کہ وہ اپنے سے بڑوں سے عید ملنے ان کے گھر جائے گا جس سے ان کو عزت ملے گی اور ہمیں ادب کی زینت۔چھوٹے بچے اپنی عیدی کے انتظار میں ہو ں گے اور عید کے دن وہ اپنی عیدی اکٹھی کرکے خوش وخرم ہو جائیں ۔عورتیں ہر سال کی طرح ا س سال بھی نئے نئے کھانے اور ڈشیں بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں جس میں پاکستان میں سویاں، چاٹ،دہی بھلے اور کھیر سرفہرست ہیں۔


یہ سب باتیں تو وہاں تک ہیں جہاں تک انسان ارادہ رکھتا ہے اب باری ہے ان تما م حالت کے بارے میں بات کرنے کی جو اس تمام  خوشی کے موقع پر انسان کو مایوس اور پریشان کر دیتے ہیں۔


ہر سال عید اپنے ساتھ ڈھیروں خوشیاں لاتی ہے لیکن عید کی تیاری کے لیے ہمیں عید کے دن سے پہلے خریداری کرنا ہوتی ہےتاکہ ہم عید کے دن نئے کپڑے اور جوتے پہن کر عید کا دن خوشی سے منا سکیں ۔اس کے لیے ہمیں عید سے قبل ایک دن یا دودن بازاروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔لوگ انتہائی خوشی اور جذبے کے ساتھ بازار جاتے ہیں عید کی خریداری کے لیےجن میں وہ اپنا لباس اور دوسرے ملبوس خاطر اشیا کی خریداری کرتے ہیں  لیکن جب وہ کسی دکان یا مارکیٹ میں جاتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے ایک سوٹ پسند کرتے ہیں  تو وہ ان کے دل میں  خیال آتا ہے کہ میرا بیٹا اسے عید کے دن پہن کر بہت پیارا لگے گا ۔ اس کے بعد وہ دوکان دار سے اس سوٹ کی قیمت پوچھتا ہے جو عام دنوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے بعض اوقات ڈبل بھی ہوتی ہے۔ اس طرح وہ ایک مزدور پیشہ آدمی اپنی تمام خواہشوں کی دجیاں اڑتا دیکھتا ہے اور اسے اپنے لباس اور جوتوں کی بھول جاتی ہے اور خود پھٹے پرانے کپڑوں پہ گزارا کرنے پر آجاتا ہے۔لیکن پھر بھی وہ یہی چاہتا ہے کہ اس کے بیوی بچے اس موقع پر اچھا لباس پہنیں۔ اسی خاطر وہ پورے بازار کا چپہ چپہ چھان مارتا ہے کہ کہیں سے کو سستالباس اور پاوں میں پہننے کے لیے جوتے یا بوٹ مل جائیں لیکن وہ اس میں ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ عید کو اس موقع پر ہر دوکان دار نے لوٹ مچائی ہوتی ہے ان کو اس بات پہ پکا یقین ہوتا ہے کہ  یہ ایسا موقع ہے اس موقع پر اگر وہ اپنی بیچنے والی چیزوں کی جتنی مرضی قیمت لگائیں گاہک ان سے ضرور خریدے گا کیونکہ یہ موقع ہی ایسا ہے اور وہ اپنی من چاہی قیمت لگاتے ہیں جس کی وجہ سے غریب کی خوشیوں بھری عید عید آنے سے پہلے ہی غم میں بدل جاتی ہے۔لیکن اس بات کا احساس ان لوٹ مار کرنے والوں کو نہ اس سے پہلے کبھی ہوا ہے اور نہ آگے ہوتا نظر آ رہا ہے۔


ہر سال کی طرح اس سال بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ یہ تمام چیزیں جو عید کی خوشیوں پر پانی پھیریں گی آڑے آئیں گی ۔ جن میں گاڑیوں کے کرایہ سرفہرست ہے ۔عید کے اس موقع پر لوگ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملنے کی چاہ رکھتے ہیں جن میں بعض رشتہ دار نزدیک کے رہائشی ہوتے ہیں اور بعض دور کے تواس موقع پر وہ اپنے بھائیوں ،بیٹیوں اور ماں باپ سے ملنے کے لیے  جب روڈ پہ آتے ہیں اور کسی گاڑی ،بس یا رکشہ میں  سفرکرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کی  آج عید ہے آج کرایہ ڈبل ہو گا۔

یہ بات سنتے ہی غریب آدمی دل تھا م کے بیٹھ جاتا ہے اور پریشان ہو جاتا ہے کہ پہلے ہی عید پہ اتنا خرچہ ہو گیا اب ڈبل کرایہ کہا ں سے لایا جائے ۔ان میں سے بعض لوگ واپس گھر آ جاتے ہیں اور اپنے بیوی  بچو ں کو مناتے رہتے ہیں کل یا پرسوں چلے جائیں گے جب کرایہ کم ہو گا  تھوڑا صبر کرو۔بعض لوگ پیدل ہی کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔ اتنا سارا خوشی کا دن  اس اجاراداری کی وجہ سے سوگ اور پریشانی میں بدل جاتا ہے۔ظاہر ہے پاکستان میں گاڑیوں کے کرایہ پہلے ہی زیادہ ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں تو جب ڈبل ہو گا تو غریب آدمی کے لیے تو بہت پریشانی کا باعث ہے۔


اس کے علاوہ اس میں دوسرا سامنے آنے والا مسئلہ بجلی کا ہے  کہ موجودہ سال آنے والی عید انتہائی شدید گرمی کے دنوں میں ہے ۔ اگر تو لوڈ شیڈنگ نہ ہو تو عید سکون اور اطمینان سے گزر سکتی ہے لیکن جب انسان عید کی خوشیوں میں ملبوس ہوتا ہے تو اچانک بجلی چلی جاتی ہے اور گر می کی شدت انسان کو پسینے سے نہلا دیتی ہے تو عید کی تمام خوشیو ں پر ایک بار پھر سے پانی پھر جاتا ہے۔جن گھروں میں چھوٹے بچے ہوتے ہیں وہ گرمی کے مارے روتے ہیں تڑپتے ہیں تب گھر کی عورتوں اور مردوں کے لیے مزید پریشانی کا عالم کھڑا ہو جاتا ہے وہ اس طرح معصوم  بچے کو گرمی کے مارے تڑپتا ہوا کیسے دیکھ سکتے ہیں۔عید کو خوشی کا دن اس طرح سوگ میں بدل جاتا ہے۔اس سال آنے والی عید میں بھی حالیہ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے یہی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو گی اور ہماری عید کی خوشیاں گرمی اور اندھیرے کی نذر ہو جائیں گی جبکہ گزشتہ دو سالوں میں ایسا نہ تھا ۔


اس موقع پر ہر شخص کی یہی آرزو ہوتی ہے اور زبان پر بھی یہی بات ہوتی ہے کہ باقی تمام دنوں میں  تو ہم سخت گرمی ،اندھیرےاور مچھروں کا مقابلہ کرتے ہیں کم از کم اس دن میں تو ہمیں اس ازیت سے چھٹکارا مل جائےاور پورے سال کے 365 دنوں میں یہ ایک دن ہم سکون کی نیند سو سکیں۔ لیکن اب بجلی کی مستقل فراہمی اب ایک خواہش بن چکی ہے اور ہر خواہش انسان کی پوری نہیں ہوتی۔


اللہ تعالی نے انسان کے لیے کسی بھی موقع پر پریشانی کس سبب بننے والی چیزوں کا کوئی حکم نہیں دیا بلکہ ایسی تمام چیزوں اور باتوں سے  منع فرمایا ہے۔لیکن دنیا میں ایسے موقوں پر خصوصاؔ ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جس سے دوسرے انسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے خاص کر پاکستان میں ایسے موقوں پر جان بوجھ کر لوگو ں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے  اور انہیں تنگ کیا جاتا ہے۔یہ وہ تمام باتیں ہیں جو شاید امیر طبقہ نہیں جانتا لیکن درمیانہ طبقہ ان حالات سے کتنی دشواری سے گزرتا ہے  یہ یا وہ جانتا ہے یا ان کا خدا ۔

اتنی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اس ملک کی عوام صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے ہو ئے ہے اور ظالم ظلم پہ ظلم کرتے جا رہے ہیں ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کی عوام امن پسند ہے اور ملک میں اور اپنی زندگی میں سکون چاہتی ہے۔

یہ صرف ایک سچ ہے جو ہم عوام کتنے سالوں سے دیکھتے آ رہے ہیں اگر آپ اس آرٹیکل کو سب لوگوں کے ساتھ شئیر کریں گے تو سچ سامنے آئے گا ۔

کوشش کریں کہ ہر شخص اس کو شئیر کرے تاکہ شاید ہمیں اس بار عید پہ مشکالات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہماری خوشیوں میں اضافہ ہو۔ شکریہ

 

مصنفؔ      ؛ عدنان صدیقیؔ 


Post a Comment

0 Comments